حضرت جنید بغدادی
رحمتہ اللہ علیہ
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت ۲۱۶ہجری ؓگداد میں ہوئی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا اسم گرامی جنید بن محمد ہے اور کنیت ابوالقاسم ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد گرامی کا نام محمد بن جنید تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ شیشے کی تجارت کیا کرتے تھے۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا آبائی وطن نہاوند ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ کے بھانجھے مرید اور خلیفہ ہیں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ سماع اور وجد کو پسند نہیں فرماتے تھے اور ظاہروباطن میں کبھی خلاف شریعت فعل آپ رحمتہ اللہ علیہ سے ظہور نہیں ہوا۔ ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ وعظ فرمارہے تھے کہ ایک مرید نے جوش میں آکر نعرہ بلند کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو روکا اور فرمایا کہ اگر آئندہ تونے پھر نعرہ بلند کیا تو ہم سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اس پر اس مرید نے توبہ کی اور پھر اپنے جذبات پر قابو پانے میں بڑی حد تک ضبط و تحمل سے کام لیا۔ ایک دن وہ دوبارہ پھر وجد میں آگیا تو اس کی موت واقع ہوگئی۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مجاہدات کی یہ کیفیت تھی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ روزانہ اپنے حجرے میں جاکر پردہ ڈال لیتے اور جب تک ۴۰۰ رکعت نفل نہ پڑھ لیتے باہر تشریف نہ لاتے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ مجاہدات میں ایسے گم ہوگئے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی جو دوکان تھی آپ رحمتہ اللہ علیہ نے وہ بھی چھوڑ دی اور اپنے ماموں حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ کےڈیوڑھی میں ایک حجرہ کے اندر چالیس سال تک مصروف عبادت رہے۔
ایک دن ایک ماجوسی گلے میں زنار اور مسلمانوں کا لباس پہن کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت آیا اور اس حدیث شریف کا مطلب دریافت کرنےلگا "مومن کی فراصت سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور کو دیکھتا ہے"۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس سوال کو سن کر تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ اپنا زنار توڑ کر کفر کو چھوڑ دو اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجاؤ۔ ماجوسی نے یہ جواب سنا تو فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ امام یافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کی دو کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں ایک تو اس نوجوان کے کفر پر اطلاع پانا دوئم اس بات پر آگاہ ہونا کہ وہ اس وقت اسلام قبول کرلے گا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کا ایک مرید بصرہ میں رہتا تھا اس کے دل میں ایک روز گناہ کا خیال پیدا ہوا۔ بس اس خیال کا آنا ہی تھا کہ اس کا چہرہ سیاہ ہوگیا۔ اس صورت حال سے بہت گھبرایا اور شرم وندامت سے گھر سے باہر نکلنا ترک کردیا۔ تین روز میں منہ کی سیاہی کم ہوتے ہوتے بالکل ٹھیک ہوگئی اور اس کا چہرہ روشن ہوگیا۔ ایک روز ایک شخص آیا اور اسے حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا خط دیا۔ جب اس نے خط پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ اپنے دل کو قابو میں رکھو اور بندگی کے دروازے پر ادب سے رہو اس لئے کہ آج مجھے تین دن اور رات سے دھوبی کا کام کرنا پڑ رہا ہے تاکہ تمہارے چہرے کی سیاہی دھوسکوں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ایک مرید تھے جن پر آپ رحمتہ اللہ علیہ خصوصی شفقت و محبت فرماتے تھے۔ کچھ لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری۔ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ اس بات سے آگاہ ہوئے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا میرا یہ مرید ادب وعقل میں تم سب سے زیادہ بلند ہے۔ پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ہر مرید کو جو اس وقت وہاں موجود تھے ایک ایک چھری دے کر ارشاد فرمایا کہ ان مرغیوں کو ایسی جگہ ذبح کرکے لاؤ جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو۔ سبھی مریدین مرغیوں کو لے کر چلے گئے اور پوشیدہ جگہوں سے ان مرغیوں کو ذبح کرکے لے آئے۔ لیکن وہ مرید خاص اپنی مرغی کو زندہ واپس لے آیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے دریافت کیا کہ تم نے اسے ذبح کیوں نہیں کیا۔ اس نے جواب دیا حضور میں جس جگہ بھی پہنچا وہاں قدرت الٰہی کو موجود پایا اور اس کو دیکھنے والا پایا۔مجھے کیونکہ کوئی پوشیدہ جگہ نہیں ملی اس لئے مجبوراً واپس لے آیا ہوں۔ یہ جواب سن کر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تم سب لوگوں نے اس کا جواب سن لیا۔ یہی اس کا خاص وصف ہے جس کی وجہ سے میں اس کو بہت چاہتا ہوں۔
جب آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زبان مبارک پر تسبیح جاری تھی چار انگلیوں کو باندھے ہوئے تھے۔ بسم اللہ پڑھی اور واصلے بحق ہوگئے۔ غسال نے غسل دیتے وقت چاہا کہ آنکھوں کے اندر پانی ڈالے، آواز آئی ہمارے دوست کی آنکھوں سے اپنے ہاتھ کو الگ رکھو جو آنکھ ہمارا نام لے کر بند ہو وہ ہمارے لیے ہی کھولی جاسکتی ہے۔ اسی طرح آپ رحمتہ اللہ علیہ کی انگلیوں کو کھولنا چاہا تو وہ بھی نہ کھل سکیں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ ۲۷رجب المرجب ۲۹۷ہجری کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار شریف بغداد میں واقع ہے۔